استاد کا وقار اور معیار تعلیم
ہمارے معاشرے میں تعلیم کا نظام اور معیار تعلیم بد حالی کا شکار ہے۔پیک کے نتائج ہوں یا اثر کی رپورٹ بچوں کے سیکھنے کا معیار گرتا جا رہا ہے ۔ کالج یا یونیورسٹی کی سطح پہ بھی یہ حالات مختلف نہیں پچھلے سال ایجوکیٹرز کے این ٹی ایس امتحان میں ہزاروں نوجوان فریش گریجو ایٹس پہلے مرحلے میں ۰۵ نمبر نا حاصل کر سکے اور دوسرے مرحلے میں امتحان پاس کرنے کے کم سے کم حد کو ۰۵ فیصد سے ۵۴ فیصد کر دیا گیا پر اس سے بھی ہزاروں آسامیاں پر نہ ہو سکیں۔
ناقص معیار تعلیم استاتذہ کے کردار پہ ایک سوال ہے لیکن اس کے پیچھے کئی وجوہات حائل ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں استاد کا مقام اس وقت زوال کا شکار ہے حالانکہ ہمارے آباؤ اجداد کے وقت صورتحال مختلف تھی۔ جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ استاد کے احترام کا سبق پڑھانے والے خود اس کی روح سے واقف نہیں۔ یوں تو ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں لیکن اسلامی قدروں سے کوسوں دور ہیں۔ اسلام اور ہر تہذیب یافتہ معاشرہ استاد کو ایک اہم مقام دیتا ہے۔ ماں باپ کے بعد ہمیں سکھانے کی ذمہ داری استاد پہ آتی ہے جسے روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے لیکن ساتھ ہی ہماری ذمہ داری اس استاد کو احترام دینے کی ہے۔
اگر کہا جائے کے استاد آج کے دور میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہے تو ہم بھی دودھ کے دھلے نہیں۔ اسی طرح اسکول استاد کا پیشہ کم تر اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔ معاشرے میں اخلاقی قدریں ختم ہونے کے باخث آج کل کے بچے اپنے والدیں ن کا احترام بھی بھول چکے ہیں ان سے استاد کے احترام کی امید کرنا بہت مشکل ہے۔پر ابھی تو یہ حال ہے کے اگر کوئی نوجوان تدریس کے پیشے سے منسلک ہوتا ہے تو اس کے لیے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ہمارے والدین چاہے خود تدریسی شعبے سے منسلک ہوں پر اپنی بیٹی کا ہاتھ بنا کسی مجبوری کے ایک استاد کو دینا گوارا نہیں کرتے۔
معاشرے میں حقیر مقام کی وجہ سے ذہین طلبا کا رجہان استاد بننے کی طرف ختم ہو چکا ہے اور طلبا صرف ڈاکٹر ، انجینئر یا سرکاری ملازمت میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے درمیانے درجے کے طلبا یا وہ طلبا جو اچھے نمبر لے کے بھی نوکری حاصل نہیں کر پاتے سرکاری اسکولوں میں پڑ ھانے کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔
دوسرا ، سرکاری اسکولوں اور کم فیس والے پرائیوٹ اسکولوں میں استاتذہ کی ٹریننگ کا بھی فقدان ہے اور پاکستان میں استاتذہ کو ٹریننگ دینے کے لئے باقائدہ ادارے موجود نہیں۔ درمیانے درجے یا مجبورنوجوان جو اس این ٹی ایس امتحان کو پاس بھی کر گئے ان کے لیئے تربیت کے مواقع بہت کم ہیں جو کے قابل فکر بات ہے۔
استاتذہ کی کم تنحواہیں بھی تعلیمی بدحالی کی ایک وجہ ہے۔ کم فیس والے پرائیوٹ اسکولوں میں استاتذہ کو جتنی تنحواہ ملتی ہے کسی اچھے ادارے میں اتنی تنحواہ ایک ڈرائیور کی ہوتی ہے۔ ان حالات میں ہم کس بہتری کی امید کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کے معیار تعلیم وقت کے ساتھ بگڑتا جا رہا ہے۔
تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے پہلے ہمیں اپنے معاشرے میں استاد کے مقام کو بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی صورت میں ہم بہتر معیار تعلیم کی طرف سفر شروع کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں بدقسمتی سے ایک حوالدار کی سفارش کو ایک استاد کی سفارش پہ فوقیت دی جاتی ہے۔ استاد کے مقام کو واپس اوپر لیجانے کے لئے بچوں کو اپنے ماضی سے روشناس کروانے اور والدین کے سنجیدہ رویہ کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ استاتذہ کی مراعات دوسرے ڈیپارٹمنٹس جتنی ہوں اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیئے ایوارڈز رکھے جائیں۔ ہمارے ہاں ایک اداکار کو تو صدارتی ایوارڈ دیا جاتا ہے پر ایک عام اسکول کے استاد کو نہیں جس نے نسلیں سنوارنی ہیں اور قوم کو بہتر بنانا ہے۔ رتبہ اور مراعات بڑھنے پڑ ہی قابل اور ذہین نوجوان استاد بننے کا سوچ سکتے ہیں اور اسکولوں کے نظام میں انقلابی تبدیلی لا کر معیار تعلیم بہتر بنا سکتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں تعلیم کا نظام اور معیار تعلیم بد حالی کا شکار ہے۔پیک کے نتائج ہوں یا اثر کی رپورٹ بچوں کے سیکھنے کا معیار گرتا جا رہا ہے ۔ کالج یا یونیورسٹی کی سطح پہ بھی یہ حالات مختلف نہیں پچھلے سال ایجوکیٹرز کے این ٹی ایس امتحان میں ہزاروں نوجوان فریش گریجو ایٹس پہلے مرحلے میں ۰۵ نمبر نا حاصل کر سکے اور دوسرے مرحلے میں امتحان پاس کرنے کے کم سے کم حد کو ۰۵ فیصد سے ۵۴ فیصد کر دیا گیا پر اس سے بھی ہزاروں آسامیاں پر نہ ہو سکیں۔
ناقص معیار تعلیم استاتذہ کے کردار پہ ایک سوال ہے لیکن اس کے پیچھے کئی وجوہات حائل ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں استاد کا مقام اس وقت زوال کا شکار ہے حالانکہ ہمارے آباؤ اجداد کے وقت صورتحال مختلف تھی۔ جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ استاد کے احترام کا سبق پڑھانے والے خود اس کی روح سے واقف نہیں۔ یوں تو ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں لیکن اسلامی قدروں سے کوسوں دور ہیں۔ اسلام اور ہر تہذیب یافتہ معاشرہ استاد کو ایک اہم مقام دیتا ہے۔ ماں باپ کے بعد ہمیں سکھانے کی ذمہ داری استاد پہ آتی ہے جسے روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے لیکن ساتھ ہی ہماری ذمہ داری اس استاد کو احترام دینے کی ہے۔
اگر کہا جائے کے استاد آج کے دور میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہے تو ہم بھی دودھ کے دھلے نہیں۔ اسی طرح اسکول استاد کا پیشہ کم تر اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔ معاشرے میں اخلاقی قدریں ختم ہونے کے باخث آج کل کے بچے اپنے والدیں ن کا احترام بھی بھول چکے ہیں ان سے استاد کے احترام کی امید کرنا بہت مشکل ہے۔پر ابھی تو یہ حال ہے کے اگر کوئی نوجوان تدریس کے پیشے سے منسلک ہوتا ہے تو اس کے لیے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ہمارے والدین چاہے خود تدریسی شعبے سے منسلک ہوں پر اپنی بیٹی کا ہاتھ بنا کسی مجبوری کے ایک استاد کو دینا گوارا نہیں کرتے۔
معاشرے میں حقیر مقام کی وجہ سے ذہین طلبا کا رجہان استاد بننے کی طرف ختم ہو چکا ہے اور طلبا صرف ڈاکٹر ، انجینئر یا سرکاری ملازمت میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے درمیانے درجے کے طلبا یا وہ طلبا جو اچھے نمبر لے کے بھی نوکری حاصل نہیں کر پاتے سرکاری اسکولوں میں پڑ ھانے کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔
دوسرا ، سرکاری اسکولوں اور کم فیس والے پرائیوٹ اسکولوں میں استاتذہ کی ٹریننگ کا بھی فقدان ہے اور پاکستان میں استاتذہ کو ٹریننگ دینے کے لئے باقائدہ ادارے موجود نہیں۔ درمیانے درجے یا مجبورنوجوان جو اس این ٹی ایس امتحان کو پاس بھی کر گئے ان کے لیئے تربیت کے مواقع بہت کم ہیں جو کے قابل فکر بات ہے۔
استاتذہ کی کم تنحواہیں بھی تعلیمی بدحالی کی ایک وجہ ہے۔ کم فیس والے پرائیوٹ اسکولوں میں استاتذہ کو جتنی تنحواہ ملتی ہے کسی اچھے ادارے میں اتنی تنحواہ ایک ڈرائیور کی ہوتی ہے۔ ان حالات میں ہم کس بہتری کی امید کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کے معیار تعلیم وقت کے ساتھ بگڑتا جا رہا ہے۔
تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے پہلے ہمیں اپنے معاشرے میں استاد کے مقام کو بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی صورت میں ہم بہتر معیار تعلیم کی طرف سفر شروع کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں بدقسمتی سے ایک حوالدار کی سفارش کو ایک استاد کی سفارش پہ فوقیت دی جاتی ہے۔ استاد کے مقام کو واپس اوپر لیجانے کے لئے بچوں کو اپنے ماضی سے روشناس کروانے اور والدین کے سنجیدہ رویہ کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ استاتذہ کی مراعات دوسرے ڈیپارٹمنٹس جتنی ہوں اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیئے ایوارڈز رکھے جائیں۔ ہمارے ہاں ایک اداکار کو تو صدارتی ایوارڈ دیا جاتا ہے پر ایک عام اسکول کے استاد کو نہیں جس نے نسلیں سنوارنی ہیں اور قوم کو بہتر بنانا ہے۔ رتبہ اور مراعات بڑھنے پڑ ہی قابل اور ذہین نوجوان استاد بننے کا سوچ سکتے ہیں اور اسکولوں کے نظام میں انقلابی تبدیلی لا کر معیار تعلیم بہتر بنا سکتے ہیں۔
Twitter: @ranaumairasif By Rana Umair Asif
No comments:
Post a Comment